تحریر : عافیہ صفدر
ھم سب جب بھی ٹی وی پر گھریلو تشدد کی سنگین ریپورٹس دیکھتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ ہم سب ہی کے گھر والے اس کی پرزور مزمت کرتے ہونگے۔ بہت سی خواتین بددعائیں بھی دیتی ھونگی اور کچھ تو یہ بھی کہتی ہیں کے ایسے آدمی کو بیوی رکھنے کا کوئی حق نہیں اور یہ سب مناظر دیکھ کر ہمیشہ میرے دل میں ایک ہی خیال آتا ہے کے کیا تشدد ایک ہی رات میں سنگین صورت اختیار کر جاتا ہے؟
ایسا نہیں ہے، تشدد کو سہنے کی ٹریننگ گھر والے اپنی بیٹیوں کو بہت کم عمری میں ہی دے دیتے ھیں ۔ ہر بات میں ایک ھی جملہ "پرائے گھر سے ہے۔ پرائے گھر چلی جاۓگی۔ ایسے جملے سن کر ایک لڑکی خود کو اپنوں میں رہتے ہوۓ بھی پرایا محسوس کرتی ہے اور پھر سونے پر سہاگا تب ہوتا ہے جب ماں باپ بیٹی کی رخصتی کے وقت ہی بات کرتی ھیں کہ "بیٹی یہاں سے تمھاری رخصتی ہو رہی ہے مگر تمھارا جنازہ اپنے شوہر کے گھر سے ہی اٹھنا چاہیے۔ یہ جملہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا ہے عورت کوئی اور چھت اور کوئی سہارا نہ ہونے کی وجہ سے مرد کے رحم وکرم اور اسکے تشدد کو سہنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہے اور اپنے بنیادی حقوق کا جنازہ روز خود ہی اٹھاتی ہے۔ کوئٹہ میں ہونے والے اس دل دھلا دینے والے واقع کو میں کبھی بھول نہیں سکتی جہاں ایک مرد نے بیوی کو زندہ حالت میں ذبح کر دیا وجہ صرف یہ تھی کے اس کی بیوی نے چاۓ ٹھنڈی دے دی تھی جسکی وجہ سے غصہ کی حالت میں اسکے ہاتھ سے بیوی کا قتل ہوگیا۔ والدین سے جب پوچھا گیا تو والدین نے کہا کے بیٹی کا شوہر اس پر تشدد کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر دل میں خیال آیا کیا تشدد کرنا غلط ہے یا تشدد برداشت کرنا؟
معاشرے کی تنقید کا نشانہ نہ بننا پڑے اسکے لیے ایک لڑکی ظلم سہنے پر مجبور کر دی جاتی ہے پھر یہ معاشرہ اسی لڑکی کی موت پر دو دن کا سوگ منا کر بھول جاتی ہے۔ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں مرد کا عورت پر ہاتھ اٹھانا ،عورت سے سخت لہجے میں بات کرنا مردانگی سمجھی جاتی ہے اور ظلم سہنے کو عورت کی قسمت جبکہ ہمارے دین میں عورتوں سے حسن سلوک کا حکم ہے۔تو آخر ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں؟
ConversionConversion EmoticonEmoticon