خواجہ سرا اور ھمارا سماج

                                خواجہ سرا اور ھمارا سماج 
                           
ھمارے معاشرے میں جب کسی خواجہ سرا کی پیدائش ھوتی ھے تو نہ
صرف ھمارے معاشرے کے دیگر افراد بلکہ خاندان کے اپنے لوگ ھی انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
خواجہ سرا جس سے کچھ لوگ ایک الگ جنس تسلیم کرتے ھیں مگر بعض کے مطابق یہ ایک بیماری کا نام ھے جسے کلینفیلٹر سنڈروم کہا جاتا ھے اور انکا خیال ھے کہ سنڈروم میں اوسس کے دوران کروموسومز کے الگ نہ ہونے کی وجہ س ایکس ایکس وائی  والا جاندار بن جاتا ھے
خواجہ سرا عموما دو قسم کے ھوتے ھیں ایک وہ جو جنسی خواہشات سے پاک ھوتے ھیں دوسرے وہ جو مکمل طور پر ایک جنس تو رکھتے ھیں مگر ان میں خصوصیات مخالف جنس والی پائی جاتی ہیں ھمارے سماج میں ان خواجہ سراؤں کی زیادہ تعداد پائی جاتی ھیں جنکی شکل و صورت اور بناوٹ مرد جیسی ھوتی ھیں مگر خصوصیات عورتوں کی پائی جاتی ھیں
گھر میں گھر والے انکو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ھیں اور باہر تو سماج والے انکی زندگی مشکل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور جب یہی خواجہ سرا عورت کا لباس اوڑھ کر گھنگرو باندھ کر ناچنے لگے تو پھر اسی معاشرے کے غیور مرد ان پر نوٹ نچھاور کرتے ھیں مگر جب انکے مسائل کی بات آئے تو کوئی سننے کو تیار نہیں ھوتا۔
کچھ سال پہلے پشاور میں ایک خواجہ سرا اپنی زندگی کی بازی تب ھار جاتی ھے جب ڈاکٹر حضرات اس چیز کو لے کر پریشان ھوتے ھیں کہ آیا اسکو لیڈیز وارڈ میں رکھا جائے یا میل وارڈ میں ۔ اسکے علاوہ خواجہ سراؤں کو جنسی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ھے حتی کہ ھمارے سماج میں انکے نماز جنازہ کے بارے میں بھی تضاد پایا جاتا ھے۔ انکو تعلیم حاصل کرنے میں ، روزگار کے حصول میں میں انتہائی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے گورنمنٹ اور پرائیوٹ سیکٹر میں خواجہ سرا ملازمین کی تعداد کا اندازہ آپ لوگوں کو بخوبی ھوگا ۔ یہی وجہ ھے کہ ھمارے ھاں خواجہ سراؤں کی اکثریت یا تو بھیک مانگنے پر مجبور ھو گیے ھیں انکی روزی روٹی تقریبات میں ناچنے سے ھی میسر آتی ھیں مندرجہ بالا حقائق ھمارے سماج کی اس ظالمانہ اور امتیازانہ رویوں کا بخوبی عکاسی کرتی ھیں ۔
مردم شماری 2017 کے مطابق ملک بھر میں خواجہ سراؤں کی مجموعی تعداد 10 ہزار سے زائد بتائی گئی ھیں خواجہ سراؤں کی مکمل پاپولیشن کا بڑا حصہ یعنی  64 فیصد صوبہ پنجاب کے رہائشی ھیں
پاکستان میں خواجہ سرا برادری مظلوم ترین طبقہ تصور کیا جاتا ھے بہرحال گزشتہ چند سالوں سے سول سوسائٹی اس مظلوم طبقے  کی آواز
بن گئی ھے سول سوسائٹی اور خواجہ سرا برادری کی تنظیموں کے کئی سال پر محیط جدوجہد کے بعد اب جا کر خواجہ سرا کمیونٹی کا  یہ دیرینہ مطالبہ مان لیا گیا ھے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں انکا اندراج مرد اور عورت کے بجائے تیسری جنس سے کیا جائے اور مذکورہ برادری کے سرگرم کارکن فرزانہ جان پہلی فرد ھیں جن کے پاسپورٹ میں انکی جنس کو انگریزی کے حروف تہجی " ایکس" سے ظاہر کیا گیا ھے ۔ دیگر ممالک میں بھی خواجہ سراؤں کے لیے دستاویزات جنس کے خانے میں " ایکس " لکھا ھوا ھوتا ھے
اگرچہ یہ ایک مثبت اقدام ھے مگر اس مظلوم برادری کو حقوق تب ھی میسر ھونگے جب انہیں سماج سے الگ تھلگ رہنے کے بجائے معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کیا جائے جب انہیں تعلیم حاصل کرنے میں دشواری نہیں ھوگی اور روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں تب ھی وہ احساس محرومی کے اس چنگل سے چھٹکارہ حاصل کر پائیں گے نہ کہ انہیں چاردیواری تک محدود رکھا جائے اسکے لئے انہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے اور ساتھ ساتھ علماء کرام کی بنیادی ذمہ داری ھے کہ وہ لوگوں کو اخلاقی اور دینی فرائض کے بارے میں آگاہ کریں اور بتایا جائے کہ اسلام انسانوں کی تکریم سکھاتا ھے اور اسمیں جنس کو ہرگز بنیاد نہیں بنایا جاتا ۔
ارشاد باری تعالی ھے
" اللہ کے لیے آسمان و زمین جو چاہتا ھے پیدا کر دیتا ھے جسے چاہتا ھے بیٹیاں دیتا ھے جسے چاہے بیٹے دے دیتا ھے جسے چاہے ملا جلا کر دے دیتا ھے جسے چاہے بے اولاد رکھتا ھے بے شک وہ علم والا ھے قدرت والا ھے "
مگر پھر بھی ھمارے سماج میں  خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازانہ سلوک
کیوں رکھا جا رھا ھے ؟؟؟




Previous
Next Post »

4 comments

Click here for comments
Unknown
admin
January 10, 2019 at 12:36 AM ×

Sure en ko b zroor haqooq milny chain yeh b hamary trah insan hain ager Allah pak en ki jagha hamain aysa bmata to hem kia ket sakty bedhak wo her chez per qadir hai

Reply
avatar

ماحولیاتی تبدیلی

 ماحولیاتی تبدیلی : گزشتہ کئی دنوں سے شمالی بلوچستان اور سندھ کے چند علاقے شدید بارشوں کے لپیٹ میں ھیں۔ جہاں تک ژوب / شیرانی کا تعلق ھے  تو ...