تحریر : آصفہ بلوچ
انسان کو آللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنایا ھے کیونکہ انسانوں اور جانوروں میں صرف دماغ ھی کا فرق ھے۔ یعنی سوچنے سمجھنے کی قوت انسانوں میں موجود ھوتا ھے۔ انسان ھر روز ایک نئے سوچ کے ساتھ دن کا آغاز کرتا ھے اور یہی سوچ ھے جو انسان کو کامیابیوں کی طرف گامزن کرتی ھے اور یہی سوچ ھے جو کسی کو بلندیوں سے زمین پر آنے کا راستہ بھی دکھاتی ھے فقط بات اتنی ھی ھے کہ اسکو ایسے استمعال کرنا آنا چاھیے جیسے اسے استعمال ھونا چاھیے۔ ھر معاشرے کے انداز دوسرے سے مختلف ھوتے ھیں۔ صبح سے شام تک ھر گھر میں مختلف باتیں کی جاتی ھیں مگر کچھ جملے ایسے ھوتے ھیں جو ھر معاشرے میں سننے کو ملتی ھے اسی طرح کا ایک جملہ یہ بھی ھے " کہ ھم یہ کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے "۔
یہ جملہ بہت عام ھے عموما ھمیں روزمرہ کی زندگی میں کئی بار سننے کو ملتا ھے مگر کچھ یوں سوالات پھر تو اٹھنے چاھیے کہ کیا ھم اپنی مرضی سے جی سکتے ھیں؟ کیا ھم اپنی زندگی جو کہ اللہ کی دی ھوئی نعمت ھے صرف اسلئے ٹھیک سے گزار نہیں پاتے وہ بھی صرف اس لئے کہ پھر لوگ کیا کہیں گے؟ ماں کی گود سے لیکر قبر پر ڈالنے والی آخری مٹی تک یہ معاملہ ذہنوں گردش کر رھا ھوتا ھے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ دنیا بہت تیزی سے بدل رھی ھے اور ھم اسی سوچ سے ابھی تک چٹھکارا حاصل نہیں کرپائے "کہ لوگ کیا کہیں گے "
ویسے اس سوچ کا سامنا تو عموما کسی کو کرنا پڑتا ھے مگر خصوصا خواتین کو یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ھے۔ آج بھی بہت سے گھرانے ایسے ھیں جہاں خواتین کو تعلیم جیسے زیور سے صرف اس وجہ سے محروم رکھا گیا گے کہ ھماری بیٹیاں بھی پڑھنے جائیں گے تو پھر لوگ کیا کہیں گے۔ آج کی دنیا میں یقینا اب آسان نہیں رھا کہ گھر میں کمانے والا صرف ایک ھو جبکہ کھانے والے بہت سے۔ اب تو کمانے والے ایک سے زائد بھی ھو تو گھر کا پہیا مشکل سے چل پاتا ھے۔
ھمارے معاشرے میں تو خواتین کو گھر کے چاردیواری میں قید کر کے اسکی خواہشات کو مار دیا جاتا ھے صرف اسی جملے کے خاطر کہ لوگ کیا کہیں گے ؟۔
ھم۔اپنی زندگی میں رسم ورواج، رھن سہن، کھانا پینا سب لوگوں کے خواہشات کے عین مطابق کرتے ھیں ہہاں تک کہ ھم اپنے بھی ایسے بناتے ھیں کہ جب امیر طبقے سے تعلق رکھتے ھیں تو کسی غریب خاندان میں رشتہ کرنا گہوارہ نہیں کرتے۔ جہاں ھم اپنی رسم ورواج کی بات کریں تو اپنی شادی بیاہ میں عمدہ کھانے، عمدہ لباس، زیوارت اور لاکھوں روپے کا خرچہ صرف اس خاطر ھی کرتے ھیں کہ اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر لوگ کیا کہیں گے؟ ۔ صرف اسی جملے کو لے کے امیر خاندان تو جہیز یا ولور جیسا بوجھ تو آسانی سے اٹھا لیتا ھے پر ایک غریب خاندان کیلئے یہ بوجھ اٹھانا ھرگز آسان نہیں ھوتا۔
ھمارے سماج میں لوگ اسی جملے کی وجہ سے اللہ کی دی گئی نعمتوں اور ھمارے پیارے نبی ( ص ) کی تعلیمات کو بھول ھی گئے ھیں۔ جس نے ھمیں سادگی سے زندگی گزارنے کا درس دیا ھے۔
لیکن آخر کب تک ھم اپنے خواہشات کو مارتے رہینگے اپنے طرز زندگی کو صرف دوسرے لوگوں کے خواہشات اور سوچ کے مطابق گزاریں گے لہذا ھمیں اپنے سوچ کو بلا خوف و خطر اپنے ساتھ لے کے چلنا چاہئے اور ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے وگرنہ یہ فکر کہ لوگ کیا سوچیں گے ھماری کامیابیوں کو روند ڈالے گی۔
2 comments
Click here for commentsمحقیقت پشتون بلوچ وطن اس جملے کے خاطیر جہالت کی پنجرے میں گریفت ہیں
Replyحقیقت پشتون بلوچ وطن اس جملے کے خاطیر جہالت کی پنجرے میں گریفت ہیں
ReplyConversionConversion EmoticonEmoticon